یہ خبر آٹو انڈسٹری کے شوقین افراد کے لیے کافی حیران کن ہے۔ چین کی مشہور الیکٹرک کار بنانے والی کمپنی BYD جس نے کچھ ہی عرصہ پہلے ٹیسلا کو سیلز میں پیچھے چھوڑ دیا تھا، اب پہلی بار بڑے مالیاتی بحران کا شکار دکھائی دے رہی ہے۔ کمپنی کے منافع میں اچانک 30 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے، جو گزشتہ تین سالوں میں پہلی بڑی گراوٹ ہے۔ اس نقصان نے نہ صرف سرمایہ کاروں کو پریشان کیا بلکہ ہانگ کانگ اسٹاک مارکیٹ میں بھی اس کے شیئرز تقریباً 8 فیصد گر گئے۔
BYD کے مسائل کہاں سے شروع ہوئے؟
اصل مسئلہ چین کی آٹو مارکیٹ میں جاری قیمتوں کی جنگ ہے۔ پچھلے دو سالوں میں گاڑیوں کی اوسط قیمت میں تقریباً 19 فیصد کمی آئی ہے اور اب ایک نئی گاڑی کی قیمت تقریباً 22,900 ڈالر کے آس پاس ہے۔ زیادہ سیلز حاصل کرنے کے لیے مسلسل ڈسکاؤنٹس اور پروموشنز نے BYD سمیت سبھی کمپنیوں کے منافع کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
پروڈکشن اور قرض کی کہانی
کمپنی کو اپنی پیداوار کی رفتار بھی کم کرنی پڑی ہے کیونکہ اس کے قرضوں کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ مارچ میں 95.8 بلین یوآن کا ورکنگ کیپیٹل خسارہ جون تک بڑھ کر 122.7 بلین یوآن تک پہنچ گیا۔ قرض اور اثاثوں کا تناسب 71 فیصد سے اوپر جا چکا ہے، جس کی وجہ سے نئی فیکٹریوں کی توسیع بھی روکنی پڑی۔
سیلز ٹارگٹ پر دباؤ
BYD نے 2025 تک 5.5 ملین کاریں بیچنے کا ہدف رکھا تھا لیکن جولائی کے آخر تک صرف 2.49 ملین کاریں ہی بیچی جا سکیں۔ ماہرین اب اندازہ لگا رہے ہیں کہ کمپنی زیادہ سے زیادہ 5 ملین تک پہنچ پائے گی۔
Also Read
یورپ: ایک نئی امید
چین میں مشکل حالات کے باوجود یورپ میں BYD کے لیے نئی راہیں کھل رہی ہیں۔ جون میں کمپنی نے یورپ میں 13,000 یونٹس بیچے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 225 فیصد اضافہ ہے۔ اسی بین الاقوامی کارکردگی کی وجہ سے کمپنی کی کل آمدنی میں 14 فیصد اضافہ ہوا اور یہ 200.9 بلین یوآن تک جا پہنچی، اگرچہ منافع کم ہوا۔
حکومت کی مداخلت
چینی حکومت نے مئی میں واضح کر دیا تھا کہ قیمتوں کو مزید کم کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اب یہ قانون بھی بنایا گیا ہے کہ تمام کار ساز کمپنیاں اپنے سپلائرز کو زیادہ سے زیادہ 60 دن میں ادائیگی کریں گی تاکہ مارکیٹ میں لیکویڈیٹی بہتر ہو۔
نتیجہ
یہ حقیقت ہے کہ BYD اب بھی دنیا کی سب سے بڑی الیکٹرک کار بنانے والی کمپنی ہے، لیکن منافع میں کمی ایک نیا موڑ ہے۔ اگر قیمتوں کی جنگ جاری رہی تو نہ صرف BYD بلکہ پورے الیکٹرک سیکٹر کے لیے یہ صورتحال خطرناک ہو سکتی ہے۔ یورپ میں تیزی سے بڑھتی مانگ کمپنی کے لیے امید کی کرن ہے، لیکن اصل امتحان یہی ہوگا کہ وہ اندرون ملک مقابلے کے دباؤ کو کیسے جھیلتی ہے۔